تربیت کیوں ضروری ہے
جب رشتوں میں آپ شرعی احکامات اور پابندیاں لگانے لگیں تو آج کے مسلمان خوش ہونے کی بجائے غصہ یا ناراض ہو جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر: بیٹی کا کزنز سے پردہ کروانا ہو تو سننے کو ملتا ہے استغفراللہ بہن بھائیوں میں کیسا پردہ ؟ لین دین کے معاملات میں پیپر ورک کرنے کا کہا جائے تو جواب آتا ہےکیا آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟ یہاں تک کہ سگے بہن بھائی جب اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں تو لڑکے والوں کی طرف سے نامحسوس انداز میں تمام خواہشات پوری کروائی جاتی ہیں۔ اگر کہا جائے کہ لڑکی والوں سے مال کی امید یا خواہشات منوانا غیر شرعی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ارے کون سے غیر گھر میں جا رہا ہے یہ سب؟ سگی خالہ/پھوپھی یا چچا کے ہاں تو جارہی ہے لڑکی اور یہ سب تو خیر دینا ہی ہوتا ہے۔ آپ کون سا کسی غیر کو دے رہے ہیں۔
والدین فرمانبرداری کا سرٹیفکیٹ اس بیٹے کو عنایت کرتے ہیں جو خوب پیسہ کمانے والا ہو، لوٹانے والا ہو اور اگر پیسہ باہر کا ہو تو کیا ہی بات ہے۔سب کو اپنے حقوق یاد ہیں جہاں فرائض کی بات آئے وہاں لوگ اپنی گاڑی ٹرن کر لیتے ہیں۔ اور کچھ تو ایسے ہیں جو حق سے کہیں زیادہ وصول کر چکے ہیں مگر پھر بھی جتنا ہو سکے گھسیٹ لو کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
حال یہ ہو چکا ہے کہ اپنوں کے درمیان اپنے ہی تنہائی جھیل رہے ہیں۔ کیسی ایمانی حالت ہوچکی ہے۔ آج کے مسلمان کی یوں لگتا ہے کہ بھیڑیے نے بھیڑ کا لباس پہن رکھا ہے بس۔ اندر سے گدھ بن چکے ہیں مگر اپنے نفس کے شیشے میں خود کو عقاب کی طرح دیکھتے ہیں۔مادیت پسندی اور نفس پرستی نے عقل سلیم تک پہنچنے کے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔ تو جب تک اندر سے صفائی نہیں ہوگی بھلا باہر کا منظر کیسے تبدیل ہوگا؟ اس لیے ہمیں پہلے اپنی اور پھر اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔